اشاعتیں

ستمبر, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں

غزل (بشیر بدرؔ) کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کوخبر نہ ہو مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو وہ بڑا رحیم و کریم ہے تجھے یہ صفَت بھی عطا کرے تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو مرے بازوؤں میں تھکی تھکی ابھی محو خواب ہے چاندنی نہ اٹھے ستاروں کی پالکی ابھی آہٹوں کا گزر نہ ہو یہ غزل کہ جیسے ہرن کی آنکھ میں پھیلی رات کی چاندنی نہ بجھے خرابے کی روشنی کبھی بے چراغ یہ گھر نہ ہو وہ فراق ہو کہ وصال ہو تری یاد مہکے گی ایک دن وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا جو چراغ بن کے جلا نہ ہو کبھی دھوپ دے کبھی بدلیاں دل و جاں سے دونوں قبول ہیں مگر اس نگر میں نہ قید کر جہاں زندگی کی ہوا نہ ہو کبھی دن کی دھوپ میں جھول کے کبھی شب کے پھول کو چوم کے یونہی ساتھ ساتھ چلیں سدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو مرے پاس میرے حبیب آ ذرا اور دل کے قریب آ تجھے دھڑکنوں میں بسا لوں میں کہ بچھڑنے کا کبھی ڈر نہ ہو

میر کی ہندی بحر کی حقیقت

کیوں جناب؟ کچھ جانتے ہیں کہ کیا ہے ہندی بحر؟ یقیناً آپ نے یہی سن رکھا ہوگا اس بحر کے بارے میں کے اس بحر کو میرؔ نے ہندی پنگل کی بحور میں سے چن کر استعمال کیا اور اتنا استعمال کیا کہ انہیں کے نام سے منسوب ہوگئی۔ یا اکثر یہ بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کے میرؔ نے اردو میں مروجہ فارسی عروض کو بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا اور پنگل کو بھی اپنی شناخت بنایا۔  بحر اور اس کی آزادیوں کے بارے میں بھی آپ نے یقیناً بہت کچھ سن رکھا ہوگا کہ یہ بحر مکمل اسباب خفیف پر مشتمل ہوتی ہے جس میں سے کوئی بھی سبب خفیف سبب ثقیل بنا دیا جاتا ہے۔ یا ایک چھوڑ کر ایک سب خفیف کو سبب ثقیل بنانے کی اجازت ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ 

فکرِ این و آں نے جب مجھ کو پریشاں کردیا

غزل (خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ) فکرِ این و آں نے جب مجھ کو پریشاں کردیا میں نے سر نذر جنون فتنہ ساماں کردیا ان کو تو نے کیا سے کیا شوقِ فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا ہو چلے تھے وہ عیاں پھر ان کو پنہاں کردیا ہائے کیا اندھیر تو نے چشمِ گریاں کردیا طبعِ رنگیں نے مری گل کو گلستاں کردیا کچھ سے کچھ حسنِ نظر نے حسنِ خوباں کردیا زاہدوں کو بھی شریکِ حسنِ رنداں کردیا سینکڑوں کو دخترِ رز نے مسلماں کردیا جاں سپردِ تیر اور خوں صرف پیکاں کردیا پاس جو کچھ تھا مرے سب نذرِ مہماں کردیا دردِدل نے اور سب دردوں کا درماں کردیا عشق کی مشکل نے ہر مشکل کو آساں کردیا دل قفس میں لگ چلا تھا پھر پریشاں کردیا ہمصفیرو! تم نے کیوں ذکرِ گلستاں کردیا جب فلک نے مجھ کو محرومِ گلستاں کردیا اشکہائے خوں نے مجھکو گل بداماں کردیا یہ تری زلفیں، یہ آنکھیں، یہ ترا مکھڑا، یہ رنگ حور کو اللہ کی قدرت نے انساں کردیا ہر چہ بادا بادما کشتی درآب انداخیتم کرکے جرأت ان سے آج اظہارارماں کردیا تلخ کردی زندگی شورش تری کچھ حد بھی ہے اف

جلوہ فرماں دیر تک دلبر رہا

غزل (خواجہ عزیزالحسن مجذوؔب) جلوہ فرماں دیر تک دلبر رہا اپنی کہہ لی سب نے میں شسدر رہا گو مرا دشمن زمانہ بھر رہا مجھ پہ فضلِ خالقِ اکبر رہا گو مرے در پے عدو اکثر رہا جو مری قسمت کا تھا مل کر رہا تاجِ زر شاہوں کے زیرِ سر رہا سر مرا خود زینتِ افسر رہا جسم بے حس بے شکن بستر رہا میں نئے انداز سے مضطر رہا میں وہاں گو بے زباں بن کر رہا دل میں اک ہنگامہء محشر رہا باغِ عالم دشت سے بڑھ کر رہا سر میں سودا  پاؤں میں چکر رہا گو وہ گل پیشِ نظر دم بھر رہا دل میں برسوں اک عجب منظر رہا میں خرابِ بادہ و ساغر رہا دل فدائے ساقئ کوثر رہا قول جو حق تھا وہی لب پر رہا حلق میرا گو تہہِ خنجر رہا میں رہا رو باغِ ہستی میں مگر بے نوا، بے آشیاں، بے پر رہا سب چمن والوں نے تو لوٹی بہار اور مجھے صیاد ہی کا ڈر رہا یاد کر بلبل کبھی وہ دن بھی تھے میں بھی تیرا ہمنوا اکثر رہا کوئی سمجھا رند ، کوئی متقی لب پہ توبہ ہاتھ میں ساغر رہا تھم رہے آنسو، رہی دل جلن نم رہیں آنکھیں کلیجہ تر رہا عمر بھر پھرتا رہا ہوں دربدر مر کے بھی چرچا مرا گھر گھر رہا سب پڑھا لکھا میں بھولا یک قلم اک سبق ہاں عشق کا ازبر رہا سینکڑوں فکریں ہیں کو عاقل