اشاعتیں

جون, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ابلاغ، نقد و نظر اور الہام

(ایک "مبہم شعر" پر ایک عزیز اور اس ناقص کا مکالمہ) ہم نے عرض کیا: مجھے تو نہ شعر سمجھ میں آیا ہے نہ شاعر کی طرف سے فراہم کردہ تشریح۔ اگر ایک مبتدی یا اوسط درجے کا شاعر کوئی ایسا شعر کہتا ہے کہ ایک "اوسط قاری" کے دل میں اس کا مفہوم پڑھتے ہی نہ اتر جائے تو میرے خیال میں یہ شعر کا حسن نہیں بلکہ انتہائی قبیح بات ہے۔ ابلاغ کما حقہ ہو، اس بات کا سب سے زیادہ خیال چاہیے۔ وہ فرمانے لگے: دیکھئے کسی بھی تخلیق کار کو قاری یہ گائیڈ لائن نہیں دے سکتا کہ وہ کیا لکھے اور کیسا لکھے. جناب عاصم بخشی صاحب (Aasem Bakhshi) کیا خوب کہ گئے کہ آپ پہیلیوں کی کتاب بھی لکھ سکتے ہیں جسے سمجھنے والے صرف پانچ افراد ہوں. اور ایسا ہوچکا ہے. لکھنے والا اس بات کا مکلف نہیں ہے کہ وہ اس انداز میں لکھے کہ ہر قاری اس کی بات سمجھ سکے. اس کے ذمے لکھنا بھی نہیں ہے نا ہی سچا ادیب ذمہ داری سمجھ کر کچھ لکھتا ہے. بس الہام ہوتا ہے دل پر آیتیں اترتی ہے اور تخلیق کار اس الہام کو کاغذ پر منتقل کرکے قاری کے فہم پر چھوڑ دیتا ہے. یہ ذمہ داری قاری کی ہے کہ وہ اس سے کیا مفہوم اخذ کرتا ہے. یہ صرف حوصلہ شکنی ہے کہ