اشاعتیں

مارچ, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

علمِ عَروض ۸

اب تک بحرِ رمل مثمن محذوف، مقصور اور مکفوف پر بات ہوئی ہے جس پر احباب کی طرف سے بہت حوصلہ افزائی سے پُر پیغامات اور ای میل موصول ہوئی اور ساتھ ہی یہ اصرار بھی کیا گیا کہ اسباق کو جاری رکھوں۔ سبھی احباب کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں اور ساتھ ہی معذرت کا طالب بھی ہوں کہ کچھ ذاتی مسائل کی بنا پر اس جانب توجہ دینے سے قاصر ہوں۔ آپ حضرات سے دعا کی بھی درخواست ہے۔ اس کے بعد ہمارے پاس بحرِ رمل کا ایک بہت ہی مشہور و معروف وزن ہے جس میں سیکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں غزلیں کہی جا چکی ہیں۔ بیسوی صدی کے اوائل سے اب تک جتنے بھی معروف و غیر معروف شعراء ہیں ان سب کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ اسی وزن میں ہے۔ غالباً متاخرین میں کوئی ایک شاعر بھی نہ ہوگا جس نے اس بحر کو استعمال نہ کیا ہو۔ اب ہمیں اس کی عروضی کیفیت کو سمجھنا ہے، اس میں کیا کیا اجازتیں ہیں، کون کون سے تغیرات واقع ہوتے ہیں، اور کیوں واقع ہوتے ہیں یہ سب آج سمجھ لیتے ہیں۔

علمِ عَروض سبق ۷

پچھلے سبق میں بحر رمل سالم اور محذوف پر گفتگو رہی اب آگے چلتے ہیں۔ محذوف کے بارے میں تو بتا چکا ہوں کے بحر کے آخری اور سالم رکن سے آخری سبب خفیف کم کردینے کا نام حذف ہے، آج اسی بحر کے اسی وزن میں مزید اجازتوں پر بات کرتے ہیں۔ عروض یہ اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی بحر کے آخر میں ہم ایک ساکن یا متحرک حرف کو بڑھا سکتے ہیں۔ ان دونوں بحور کا آپس میں خلط کیا جاسکتا ہے یعنی ایک مصرع بغیر کسی حرف کے اضافے کے اور دوسرا مصرع اس حرف کے ساتھ ۔ مثال آگے آئے گی۔

علمِ عَروض سبق ۶

پچھلے اسباق میں ہم نے اب تک پانچ مختلف بحور کے مختلف آہنگ یعنی اوزان کو پڑھا ہے۔ اب ہم ایک اور مفرد بحر کو پڑھتے ہیں۔ بحر کا نام ”بحر رمل“ ہے۔ یوں تو بحر رمل سالم کا وزن ”فاعلاتن“ چار مرتبہ ہے۔ مگر یہ بحر اردو میں سالم مستعمل نہیں۔ مثال کے لئے ایک شعر نقل کر دیتا ہوں: تاب پر آتا نہیں مطلق دلِ بے تاب جو اب پیچ کیا کھانے لگیں زلفیں تمہاری ان دنوں میں

علمِ عَروض سبق ۵

اب تک ہم نے چار سالم ”مفرد “ بحریں پڑھیں، انکا آہنگ سمجھا، ارکا ن کو بھی دیکھا اور تقطیع بھی کر لی۔  مفرد سے آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ ایسی بحر مراد ہے جو صرف ایک ہی رکن سے بنی ہو۔  اور ایسی بحروں کے نام بھی عرض کر چکا ہوں۔ یاد دہانی کے لئے پھر لکھ دیتا ہوں۔  1۔ ہزج (مفاعیلن) 2۔ متقارب (فعولن) 3۔ متدارک (فاعلن) 4۔ رجز (مستفعلن) 5۔ رمل (فاعلاتن) 6۔ کامل (متفاعلن) 7۔ وافر (مفاعلتن)

علمِ عَروض سبق ۴

علم عروض میں اب تلک ہم نے ذیل میں درج چار چیزوں کو جانا: 1۔ بحر  2۔ ارکان/ افاعیل/ تفاعیل 3۔ تقطیع 4۔ مرکب (ایک سے زائد ا رکان سے بنی) و مفرد (ایک رکن سے بنی) بحریں۔  یاد دہانی کے بعد یہ بتاؤں کہ فی الوقت ہمارا کام اول، دوم اور سوم کی مشق کرنا ہے تو آئیں آج بھی پہلے کی طرح ایک نیا آہنگ دیکھتے ہیں۔ اور ساتھ ہی اسکے بحر، ارکان اور تقطیع کو بھی سمجھتے ہیں۔

علمِ عَروض سبق ۳

اب تک کے دو اسباق میں ہم علم عروض کے حوالے سے بحر،ارکان، وزن اور آہنگ کے بارے میں سمجھتے آرہے ہیں اور امید ہے کے آپ کو سمجھ بھی آرہا ہوگا۔  اب تک ہم نے دو آہنگ دیکھے جس کی مثالیں بھی آپ نے دیکھ ہی لی ہیں۔ آج ایک نیا آہنگ دیکھتے ہیں۔  انتہائی خوبصورت آہنگ ہے اور اہلِ ذوق جانتے ہیں کے شعر کی روانی میں ایک بڑا دخل بحر کا رواں ہونا بھی ہے۔

علمِ عَروض سبق ۲

اب تک آپ یہ تو سمجھ چکے ہیں کہ علمِ عروض کیا ہے اور اس میں ”بحر“ کیا کام انجام دیتی ہے۔  اب آگے بڑھتے ہیں ۔۔۔ پہلے تو آپ کو میں یہ بات بتاؤں کہ ہم عروض کو آہنگوں کے طریقے سے سیکھیں گے تاکہ آپ کی طبیعت پر بار نہ رہے۔ اور آگے چل کر اگر آپ کو دلچسپی ہو تو پڑھتے جائیں سمجھتے جائیں اور پوچھتے جائیں۔ 

علمِ عَروض سبق ۱

“علمِ عروض کا مختصر ترین تعارف” علم عَروض وہ علم ہے جس میں کسی شعر کا وزن معلوم کیا جاتا ہے یا کسی شعر کو وزن میں رکھنے میں رہنمائی لی جاتی ہے۔ مثلاً میں اگر شعر کہنا چاہوں تو مجھ پر فرض ہے کے میں دو مصرعوں کو کسی وزن کی قید میں رکھوں جس سے معلوم ہو سکے کہ در حقیقت یہ شعر ہی ہے کوئی نثر نہیں۔ 

حمدِ باریِ تعالی از: بسمل

گواہی مل رہی ہے ہر شجر سے ہے خدا واحد زمیں پر آکے نکلی ہیں یہ شاخیں جب اگا واحد نہیں خالق نہیں ہے رب کوئی تیرے سوا واحد کوئی بھی آج تک ایسا ہوا ہے دوسرا واحد پسا دانہ بنا جو بچ گیا جو مل گیا اس سے تری ٖقدرت ہے یہ ارض و سماں کی آسیا واحد کجا اربع عناصر اور کجا تخلیقِ آدم ہیں اسی کی حمد ہے یہ صاحبِ امرِ بقا واحد فنا ہو کر یہ ثابت کردیا جھوٹے خداؤں نے مرے ہیں چھوڑ کر بندوں کو کس پر ہے خدا واحد اسے کس نے نہیں دیکھا کسی نے اسکو دیکھا ہے نمایاں ہے ہر اک شے سے یہ چھپنے کی ادا واحد وہی وہ ذات ہے جس کو بتوں نے بھی کہا واحد جو اتنی خلق پیدا کرکے بھی سب میں رہا واحد یہ منظر دیکھ کر بسمل نے اس مصرعے کو اپنایا خدا واحد، خدا واحد، خدا واحد، خدا واحد