اشاعتیں

اکتوبر, 2012 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

رباعی کے ”دو“ اوزان

ابھی کچھ دیر پہلے ایک عزیز سے رباعی کے اوزان کے متعلق بات چل رہی تھی کہ رباعی کے چوبیس اوزان کو یاد رکھنا بڑا مشکل کام ہے اور بڑے بڑے عروضی بھی ان چوبیس اوزان کو اسی طرح لکھتے ہیں اور شاگردوں کو یاد کرواتے ہیں۔  قارئین میں جو میرا مضمون ہندی بحر کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں انہیں کچھ عجب محسوس نہ ہوگا البتہ جو نا مانوس ہیں ان کے لئے تو یقیناً نئی چیز ہے۔ بہر حال کوئی لمبی کہانی نہیں ہے۔ 

وحشی اسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے:: بشیر بدر

غزل (بشیر بدر) وحشی اسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے انساں کی لازوال محبت، غزل سے ہے ہم اپنی ساری چاہتیں قربان کر چکے اب کیا بتائیں، کتنی محبت غزل سے ہے لفظوں کے میل جول سے کیا قربتیں بڑھیں لہجوں میں نرم نرم شرافت، غزل سے ہے اظہار کے نئے نئے اسلوب دے دیے تحریر و گفتگو میں نفاست غزل سے ہے یہ سادگی، یہ نغمگی، دل کی زبان میں وابستہ فکر و فن کی زیارت غزل سے ہے شعروں میں صوفیوں کی طریقت کا نور ہے اردو زباں میں اتنی طہارت غزل سے ہے اللہ نے نواز دیا ہے تو خوش رہو تم کیا سمجھ رہے ہو، یہ شہرت غزل سے ہے

مسدسِ بدحالی از ضمیر جعفری

سیاست کا ہر پہلواں لڑ رہا ہے یہاں لڑ رہا ہے، وہاں لڑ رہا ہے بیاں کے مقابل بیاں لڑ رہا ہے حسابِ دلِ دوستاں لڑ رہا ہے ستارہ نظر مہ جبیں لڑ رہے ہیں یہ حد ہےکہ پردہ نشیں لڑ رہے ہیں مزاجوں میں یوں لیڈری آگئی ہے کہ گھر گھر کی اپنی الگ پارٹی ہے کوئی شیر ہے تو کوئی لومڑی ہے یہی اپنی لے دے کے انڈسٹری ہے نہ منزل نہ جادہ نہ کوئی ارادہ رضا کار کمیاب، لیڈر زیادہ اگر گھر میں ہیں خیر سے چار بھائی تو اک اک نے ڈفلی الگ ہے اُٹھائی بچھی ہے سیاست کی پتلی چٹائی بہ ہر تخت پوش و بہ ہر چار پائی سلیٹی کوئی ، توتیائی ہے کوئی کوئی سرخ ہے، فاختائی ہے کوئی جلوس اور جلسے میں تکرار ان میں فساد و فتن کے نمک خوار ان میں بپا مستقل جوت پیزار ان میں ”یونہی چلتی رہتی ہے تلوار ان میں“ جو زندہ مہینہ ، مردہ مہینہ یہ کیا زندگی ہے، نہ جینا نہ مرنا ملوں، پرمٹوں، کارخانوں کے جھگڑے سیاست کے “نودولتانوں“ کے جھگڑے زبانوں، بیانوں، ترانوں کے جھگڑے فسانوں پہ ہم داستانوں کے جھگڑے سرخوان لقمہ اُٹھانے پہ جھگڑا وہ جھگڑا کہ ہر دانے دانے پہ جھگڑا حقائق کے آثار دھندلانے والے جرائد میں شہ سرخیاں پانے والے یہ ہر قول دے کر مکر جانے والے یہ ہر ”

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

غزل (فیض احمد فیضؔ) ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیئے ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد بشکریہ اردو محفل