اشاعتیں

اپریل, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

فیس بک پر ایک عزیز کو اوزان "فعولُ فعلن" اور "مفاعلاتن" میں کچھ تردد تھا جس کے حوالے سے انہوں نے درج ذیل سوال اٹھایا۔ تو سوچا کہ اس سوال کے جواب کو اپنے بلاگ کے قارئین کی خدمت میں بھی پیش کردوں تاکہ جواب استفادۂ عام کے لیے محفوظ ہوجائے۔  سوال: ز حالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں *امير خسرو كى اس غزل كا وزن بعض عروضيوں كے نزديک "فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن" ہے، جبكہ بعض عروضيوں كے نزديک "مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن" ہے.  مزمل بهائى، براه مہربانى اس حوالے سے رہنمائى فرمائيں كہ ١. ان دونوں اوزان كو كہاں سے اخذ يا حاصل كيا جاتا ہے؟ اور دونوں اوزان كو كيا نام ديا جاتا ہے؟ ٢. مندرجہ بالا دونوں اوزان مين عروضيوں كے اختلاف كى وجہ كيا ہے؟

علمِ عروض سبق ۱۰

پچھلے سبق میں ہم نے اجزائے ارکان یعنی سبب، وتد، فاصلہ اور ان کی اقسام کے بارے میں تفصیلی طور پر بحث کی ہے۔ ساتھ ہی عام اردو اور فارسی الفاظ کی مثالوں کو بھی دیکھا۔ اب وقت موزوں ہے کہ ہم ان اجزائے ارکان کو ارکانِ عروض کے حوالے سے سمجھیں اور ان کا استعمال بھی عروضی حوالے سے واضح کردیں۔اب ہم ارکان کے تحت ہر خاص رکن کے اجزاء کو دیکھتے ہیں۔