فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

فیس بک پر ایک عزیز کو اوزان "فعولُ فعلن" اور "مفاعلاتن" میں کچھ تردد تھا جس کے حوالے سے انہوں نے درج ذیل سوال اٹھایا۔ تو سوچا کہ اس سوال کے جواب کو اپنے بلاگ کے قارئین کی خدمت میں بھی پیش کردوں تاکہ جواب استفادۂ عام کے لیے محفوظ ہوجائے۔ 

سوال:
ز حالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں

*امير خسرو كى اس غزل كا وزن بعض عروضيوں كے نزديک "فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن فعول فعلن" ہے، جبكہ بعض عروضيوں كے نزديک "مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن" ہے. مزمل بهائى، براه مہربانى اس حوالے سے رہنمائى فرمائيں كہ
١. ان دونوں اوزان كو كہاں سے اخذ يا حاصل كيا جاتا ہے؟ اور دونوں اوزان كو كيا نام ديا جاتا ہے؟
٢. مندرجہ بالا دونوں اوزان مين عروضيوں كے اختلاف كى وجہ كيا ہے؟


جواب:
زحال مسکیں مکُن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں۔
اس شعر کی بحر مفاعلاتن آٹھ مرتبہ ہے۔
اختلاف جو پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ روایتی عروض میں صرف دو قسم کے ارکان پائے جاتے ہیں۔ ایک خماسی یعنی پانچ حروف والے۔ جیسے فعولن اور فاعلن۔ دوسرے سباعی یعنی سات حروف والے۔ جیسے مفاعیلن، فاعلاتن، مفعولاتُ، مفاعلتن وغیرہ۔
مفاعلاتن پر یہ بحث تھی کہ یہ رکن ہشت حرفی ہے۔ اس میں آٹھ حروف ہیں اور عروض میں ایسا کوئی رکن پایا ہی نہیں جاتا۔ اس لیے یہ رکن ممکن نہیں ہے۔

اب ہوا یہ کہ عروضیوں نے یہی وزن بحر متقارب سے نکالا جس کے ارکان فعولُ فعلن بنتے ہیں۔
فعولن سے مقبوض فعولُ ہے، یعنی پانچواں حرف جو سبب خفیف کا ساکن ہو اسے گرا دیا۔ دوسرا فعولن سے اثلم فعلن ہے۔ یعنی ثلم سے فعولن کا ف گرا کر عولن بر وزن فعلن بنایا۔ اس طرح اس کی تکرار ہوئی:

فعولُ فعلن فعولُ فعلن فعولُ فعلن فعولُ فعلن

اس کے برعکس ایک عروضی نے کہا کہ اگر بحر رجز مستفعلن پر خبن جاری کیا جائے تو مفاعلن بنتا ہے۔ اور خبن کے ساتھ ایک علت بنام ترفیل لگائی جائے تو آخر میں ایک سبب خفیف بڑھا کر اسے "مفاعلن تُن" بر وزن مفاعلاتن کیا جاسکے گا۔ اور یہ اس فعولُ فعلن سے زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ متقارب میں زحاف اثلم کی اجازت صرف مصرعے کے پہلے رکن یعنی صدر و ابتدا تک قید ہے۔ حشوین اور عروض و ضرب میں یہ زحاف نہیں استعمال کیا جاسکتا۔
تو سامنے سے جواب آیا کہ بھئی آپ نے رجز پر جو ترفیل کا زحاف لگایا ہے وہ علت ہے۔ اور ترفیل صرف مصرعے کے آخری رکن یعنی عروض و ضرب پر جاری کیا جاسکتا ہے۔ اس لیئے حشوین اور صدر و ابتدا میں یہ زحاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
الغرض، اگر رجز سے یہ وزن نکالو تو صدر و ابتدا اور حشوین کا مسئلہ بنتا ہے۔ اور متقارب سے نکالو تو حشوین اور عروض و ضرب کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہی معاملہ بحر کامل موقوص مرفل کا بھی ہے۔
انسان جائے تو کہاں جائے؟
اس کا حل آخر یہ نکلا کہ ہشت حرفی ارکان کا ایک الگ دائرہ بنا دیا جائے۔ جس کا کلیدی رکن مفاعلاتن محقق طوسی نے معیار الاشعار میں دیا تھا۔ لیکن یہ ایک بے نام اور بے دائرہ بحر تھی۔ تو اس کا نام بھی رکھا گیا اور دائرہ بھی بنایا گیا۔

اس دائرے کا نام: دائرۂ طوسیہ


اس دائرے سے تین ارکان یعنی تین مفرد بحریں نکلتی ہیں۔ 

۱) بحرِ جمیل: مفاعلاتن
۲) بحرِ خلیل: مُفتعولتن
۳) بحرِ شمیم: مفاعی لتن

اب جب کہ علمِ عروض میں باقاعدہ جائز طریقے سے یہ بحر ایجاد ہوچکی ہے تو اسے اپنے نام سے یاد کرنا اور انہی ارکان سے تقطیع کرنا حقیقی اور عروضی اعتبار سے سب سے زیادہ منطقی اور درست ہے۔

تبصرے

  1. ’’بحرِ جمیل‘‘ اچھا نام ہے۔ اسی کو پروفیسر غضنفر نے ’’بحرِ مرغوب‘‘ کہا ہے۔ کیا خیال ہے اگر بحرِ خلیل کا متن ’’مفتعولتن‘‘ کی بجائے ’’مستفاعلن‘‘ ہوتا تو صوتیت میں بہتر نہ ہوتا؟ بہت شکریہ۔ ۔۔۔ محمد یعقوب آسی ۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. پروفیسر غضنفر کی کتاب مجھے اب تک بوجہ پڑھنے کا اتفاق نہ ہوسکا۔ میں نے لے رکھی تھی لیکن ایک دوست لے گئے مجھ سے۔ اب یہ بھی ہے کہ کتابوں کو لوٹانا گناہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ خیر اللہ انہیں خوش رکھیں۔ کتاب مجھے دوبارہ مل نہیں سکی اس لیے تاحال میں ان کی تحقیق پر اس لیے گفتگو نہیں کرسکتا کہ ان کا انفکاکِ بحور کا طریقہ مجھے نہیں معلوم۔ اگر آپ اس حوالے سے ان کی رائے سے آگاہ کرسکیں تو میرے لیے آسانی ہوجائے۔
      باقی رہی بات مفتعولتن کی یا مستفاعلن کی تو یہ ایک نئی بحر ہے جس کے اوزان و ارکان دونوں کسی طرح بھی مانوس نہیں ہیں کہ میں رکن کی کسی خاص شکل پر اسرار کروں۔ تو میرے خیال میں جسے جو آسان لگے وہ اختیار کرنا چاہئے۔ :)

      حذف کریں
    2. فاعلاتن (بحر رمل) سے پہلے ایک حرکت جمع کر دی۔ مفاعلاتن بن گیا۔
      اس کو اہلِ زحاف کی زبان میں کیا کہیں گے، آپ بہتر جانتے ہیں۔

      حذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. چونکہ تمام ارکان عربی لحاظ سے کسی نہ کسی صیغۂ صرفی کے وزن کے مطابق ہیں ، اس لیے مجھے "مفتعولتن" اور "مستفاعلن" دونوں کے بجائے "مستفیلتن" یا توڑ کر "مستفی لتن" بہتر لگتا ہے جوکہ باب استفعال اجوف کا اسم فاعل واحد مؤنث کا صیغہ ہے جیسے مستقیمۃ ، مستجیبۃ (اگر انھیں منون پڑھا جائے) از محمد اسامہ سرسری

    جواب دیںحذف کریں
  4. پسند اپنی اپنی سہی۔ تاہم ایک بات جو سارے ارکان میں موجود ہے: سب میں حروف (ف ع ل) اسی ترتیب میں آتے ہیں گویا عربی کے ابواب کی سی صورت ہے۔ جناب اسامہ کی تجویر (مس ت فی ل تن) ۔۔ اس میں (ع) اُڑ گیا۔
    نوٹ: فا، فع، فاع، فعو اصولی طور پر ارکان رہتے ہی نہیں۔ اس لئے وہاں (ف ع ل) پورے نہیں ہو رہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. (مُفاعِلاتُن بنام فعولُ فعلُن)
    علمِ عروض میں پسند اپنی اپنی والا فارمولا نہیں اپنا سکتے کیونکہ اِس میں جو بھی رائے قائم کی جاتی ہے وہ عروض کے قوانین، شرائط اور علماے عروض کی دلائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے قائم کی جاتی ہیں۔محقق طوسی نے اپنی کتاب معیار الاشعار میں ایک ہشت حرفی سالم رکن مُفاعِلاتن کا ذکر کیا ہے جو دو وتد مجموع اور ایک سبب خفیف سے مرکب ہے جِس کومحترم کمال احمد صدیقی صاحب نے اپنی کتاب آہنگ اور عروض میں اصول کی حیثیت دی ہے اور باقائدہ اسے بحرِ جمیل کا نام دے کر محقق طوسی کے نام پر وضع کئے گئے دارے :دائرہ طوسیہ: سے بحرِ جمیل کے ساتھ مزید دو بحور کا استخراج کیا ہے ، جن کی تفصیل درجِ ذیل ہے۔
    1. مفاعِلاتن- جو دو وتد مجموع اور ایک سبب خفیف سے مرکب ہے۔
    2.مفتعولتن- جو ایک سبب خفیف اورد ووتد مجموع سے مرکب ہے۔
    3. مفاعی لتن- جو دو وتد مجموع کے درمیان ایک سبب خفیف سے مرکب ہے۔
    اسی طرح ایک وزن ہے : فعلُ فعولن: جِس کو شیخ ابراہیم ذوق نے اپنے ایک قصیدہ میں برتا ہے اِس کے لئے بھی کمال احمد صدیقی صاحب نے ایک دائرہ ابراہیمیہ وضع کیا اور اس سے مزید دو بحور کا استخراج کیا ہے۔
    وہیں مولوی نجم الغنی صاحب اپنی مشہورِ زمانہ کتاب بحرالفصاحت میں لکھتے ہیں کہ :-
    "اصول محصور ہیں نہ فروع یعنی ارکان ِ افاعیل دس سے زائد نہیں آ سکتے اور جو رکن پایا جائیگا وہ انھی کی ترکیب و کمی بیشی وغیرہ سے پیدا ہوگا اور فروع کی شکلیں اور بحروں کے تغیرات محصور نہیں پس ہم جس قدر فروع بیان کریں گے وہ وہ ہیں جو غالبا موجود ہیں اور ان سے سوا کا بھی حاصل ہونا ممکن ہے"
    اس سے واضح ہو گیا کہ سالم ارکان کی تعداد دس ہی رہے گی۔
    میں بھی مولوی نجم الغنی صاحب کی اِس بات سے متفق ہوں کہ سالم ارکان کی تعداد دس ہی رہیگی اور جو نئے ارکان وجود میں آئیں گے وہ پہلے سے موجود سالم ارکان کی فروعات کی مختلف ترتیبوں سے تشکیل پائیں گے کیونکہ سالم ارکان کی تعداد مقید ہے اور ارکان کی فروعات پر کوئی بندش نہیں ہے ان میں اضافہ کی گنجائش ہمیشہ رہیگی۔ اسلئے نئے سالم ارکان ایجاد کرنا اور ان کے بوتے نئے دائرے ، نئی بحور ایجاد کرنا ایک غیر ضروری عمل ہے۔
    اب بات آتی ہے وزن: فعولُ فعلن :کی کہ اِسے اِسی شکل میں اصل وزن سمجھا جائے یا بحرِ جمیل کے سالم رکن مفاعِلاتن کو اصلی رکن مانا جائے؟ میری نظر میں اِس کا سیدھا سا جواب ہے کہ جب پہلے سے موجود سالم ارکان کی فروع سے یہ وزن حاصل ہو رہا ہے تو نئے سالم رکن کی ضرورت کیوں ہے۔
    اِس بارے میں عہدِ حاضِر کے مشہور عالمِ عروض محترم عارف حسن خان صاحب کی بات کو میں تسلیم کرتا ہوں جو انھوں نے اپنی کتاب معراج العروض میں لکھی ہے ۔ مصنف اپنی کتاب معراج العروض کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ:-
    ""میرے ذہن میں ایک عرصے سے الجھی ہوئی ایک گتھی اس کتاب (جناب محترم ذاکر عثمانی کی کتاب عروضِ خلیل مکتفی) نے حل کر دی۔ ایک معروف و مقبول وزن ہے: فعولُ فعلن فعولُ فعلن :جسے عروض کی متد اول کتب میں بحرِ متقارب کے تحت رکھا گیا ہے۔ کم و بیش پچیس سال سے یہ وزن میرے لیے ایک الجھن بنا ہوا تھا کیونکہ اِسے متقارب میں رکھنا عروضی قواعد کے خلاف ہے۔
    بحر رجز کا ایک وزن مفاعلن فاعلن فعولن اس کے مساوی ہے چنانچہ اس کا لیکن دشواری تب پیش آتی تھی جب یہ وزن یعنی فعول فعلن مسدس مضاعف کی صورت میں استعمال کیا گیا ہو۔ ایسی صورت میں اس کی تقطیع زجر میں بھی ممکن نہ تھی اور یہ مسئلہ تھا کہ اسے کس بحر کے تحت رکھا جائے۔
    ڈاکٹر کمال احد صدیقی کی کتاب آہنگ اور عروض منظرِ عام پر آئی تو اس میں انھوں نے کچھ نئی بحور و اوزان تجویز کیے تھے، جن سے اگرچہ فقیر کو اتفاق نہیں تاہم ان کی ایک بحر جو مفاعلاتن کی تکرار سے وجود پاتی ہے اور جس کا نام انھوں بحر جمیل تجویز کیا ہے کا وزن فعول فعلن کا بالکل مساوی ہے۔ معراج العروض کے پہلے ایڈیشن میں اس وزن کا کوئی اور متبادل نہ ہونے کی بنا پر فقیر نے ایک نئی بحر جمیل کے عنوان سے ایک باب کتاب میں شامل کرکے اس وزن کو اسی کے تحت رکھا تھا لیکن اب ذاکر عثمانی صاحب کی کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد میں ان سے اتفاق کرتے ہوئے اس بات پر پوری طرح مطمئن ہون کہ یہ وزن بحر مقتضب کے تحت ہی آئیگااور اس کے ارکان وہی رہیں گے جس طرح یہ رائج ہیں یعنی فعول فعلن ۔ چنانچہ کتاب کے اس ایڈیشن میں اسے بحر مقتضب کے تحت ہی رکھا گیا ہے اور بحر جمیل کو کتاب سے خارج کر دیا گیا ہے۔""
    محترم ذاکر عثمانی صاحب اور محترم عارف حسن خان صاحب کی اِن تجاویز کو قبول کرتے ہوئے میں بھی یہی کہوں گا کہ یہ وزن فعول فعلن اِسی طرح بحرِ مقتضب میں تقطیع کر لیا جائے جس سے اس وزن سے جڑی تمام مباحث ختم ہو جائیں گی۔
    یہ میری ذاتی رائے ہے جِس سے کسی کے متفق ہونے پر مجھے کوئی اصرار نہیں البتہ کوئی بھی رائے قائم کرتے وقت علمِ عروض کے قوانین و شرائط کو ضرور ذہن میں رکھیں ۔ (از ناچیز شمس بھوپالی)

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حرف روی کی تعریف۔ ایک استفسار کا مفصل جواب۔ مزمل شیخ بسملؔ

علمِ عَروض سبق ۹