ایک شعر جو اپنے خالق کو پیچھے چھوڑ گیا۔



ادب میں بہت سی شخصیات ایسی ہیں جو باوجود اس کے کہ معمولی نہیں تھیں، منظرِ عام پر نہیں آسکیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت ان کی بھی ہے۔ زندگی کی تلخیوں پر طنزیہ انداز میں لکھنے والا شاید ان سے بڑا کوئی بھی نہیں گزرا۔ ان کا کلام گو کہ زیادہ نہیں ہے، لیکن جتنا ہے اس سے یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے کہ ایک قادر الکلام، جہاں دیدہ اور پختہ کار شاعر ہے۔ اور ہم میں سے تقریباً ہر شخص انہیں ان کے نام سے نہیں تو کم از کم ان کے اس شہرہ آفاق شعر سے ضرور جانتا ہے:

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اس شعر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنے خالق سے اتنا آگے نکل گیا کہ آج ہر وہ شخص جو شاعری سے بالکل بھی لگاؤ نہ رکھتا ہو، اسے بھی یہ شعر یاد ہوتا ہے۔ چنانچہ ابھی ایک گروپ میں یہ سوال ہوا کہ یہ شعر کس کا ہے، تو سوچا کہ اس شعر کو مکمل غزل کے ساتھ ٹائپ کرکے شائع کیا جائے۔ ملاحظہ ہو، حضرت اخترؔ انصاری:

سینہ خوں سے بھرا ہوا میرا
اُف یہ بد مست مے کدہ میرا

نا رسائی پہ ناز ہے جس کو
ہائے وہ شوقِ نا رسا میرا

عشق کو منہ دکھاؤں گا کیونکر
ہجر میں رنگ اڑ گیا میرا

دلِ غم دیدہ پر خدا کی مار
سینہ آہوں سے چِھل گیا میرا

یاد کے تُند و تیز جھونکے سے
آج ہر داغ جل اٹھا میرا

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

منّتِ چرخ سے بری ہوں میں
نہ ہوا جیتے جی بھلا میرا

ہے بڑا شغل زندگی اخترؔ
پوچھتے کیا ہو مشغلہ میرا

دہانِ زخم (مجموعۂ کلام از اختر انصاری)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حرف روی کی تعریف۔ ایک استفسار کا مفصل جواب۔ مزمل شیخ بسملؔ

فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

علمِ عَروض سبق ۹