علمِ عَروض ۸




اب تک بحرِ رمل مثمن محذوف، مقصور اور مکفوف پر بات ہوئی ہے جس پر احباب کی طرف سے بہت حوصلہ افزائی سے پُر پیغامات اور ای میل موصول ہوئی اور ساتھ ہی یہ اصرار بھی کیا گیا کہ اسباق کو جاری رکھوں۔

سبھی احباب کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں اور ساتھ ہی معذرت کا طالب بھی ہوں کہ کچھ ذاتی مسائل کی بنا پر اس جانب توجہ دینے سے قاصر ہوں۔ آپ حضرات سے دعا کی بھی درخواست ہے۔

اس کے بعد ہمارے پاس بحرِ رمل کا ایک بہت ہی مشہور و معروف وزن ہے جس میں سیکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں غزلیں کہی جا چکی ہیں۔ بیسوی صدی کے اوائل سے اب تک جتنے بھی معروف و غیر معروف شعراء ہیں ان سب کے کلام کا ایک بہت بڑا حصہ اسی وزن میں ہے۔ غالباً متاخرین میں کوئی ایک شاعر بھی نہ ہوگا جس نے اس بحر کو استعمال نہ کیا ہو۔
اب ہمیں اس کی عروضی کیفیت کو سمجھنا ہے، اس میں کیا کیا اجازتیں ہیں، کون کون سے تغیرات واقع ہوتے ہیں، اور کیوں واقع ہوتے ہیں یہ سب آج سمجھ لیتے ہیں۔


جی تو میں "بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف" کی بات کر رہا تھا۔

رمل سالم کے ارکان ہیں:

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

اب زحافات کا معاملہ یوں ہوگا کہ:-
خبن: سالم رکن کے شروع میں اگر سبب خفیف ہو تو اس کا دوسرا حرف گرانا۔ "فاعلاتن" سے "الف" گر کر "فعِلاتن" رہ گیا۔ اسے مخبون کہتے ہیں

حذف: بحر کے آخری اور سالم رکن کے آخر میں اگر سبب خفیف ہو تو اسے گرا دینا حذف کہلاتا ہے۔ (یاد رکھیں "حذف" ایک خاص زحاف ہے۔ ہر جگہ استعمال نہیں ہوتا صرف عروض و ضرب یعنی بحر کے آخری رکن میں واقع ہوتا ہے) فاعلاتن سے "تن" گر گیا اور "فاعلا" بچا۔ اسے "فاعلن" سے بدل دیتے ہیں۔ رکن کو "محذوف" کہتے ہیں۔

اب بات یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم رمل سالم کے پہلے رکن کو چھوڑ کر باقی سارے ارکان پر خبن کا زحاف لگا دیتے ہیں تو بحر یوں ہو جائے گی:

فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلاتن

پھر حذف کا زحاف آخری رکن میں لگائیں تو فعِلا رہ جائے گا جسے فعِلُن سے بدلتے ہیں۔ اب بحر یوں ہو گئی:

فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلُن

یہ پہلا وزن تیار ہو گیا۔
مثال میں اقبالؒ کا شعر دیکھیں:

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا

تھی فرشتو::: فاعلاتن
کُ بِھ حیرت ::: فعِلاتن
کِ یِ اَا وا ::: فعِلاتن
ز ہِ کا ::: فعِلن

عرش والو::: فاعلاتن
پِ بھِ کھلتا ::: فعِلاتن
نہِ یہ را ::: فعِلاتن
ز ہِ کا ::: فعِلن

اب تغیرات کو دیکھیں:-

پہلی اجازت: یاد کریں تو پچھلے سبق میں ہم نے محذوف رکن کے قائم مقام ارکان کے زحافات کے بارے میں بھی پڑھ رکھا ہے یعنی محذوف کی بجائے مقصور رکن لایا جائے تو بھی جائز ہوگا۔ تو آخری رکن "فعِلُن" کی بجائے "فعِلان" رکھا جائے تو جائز ہے۔ یہاں تک دو اوزان تیار ہوئے۔

1۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلُن
2۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلان

دوسری اجازت: تسکین اوسط کے بارے میں آپ سب ہی جانتے ہیں کہ جب تین متحرک حروف جمع ہو جائیں تو درمیان والے کو ساکن کرنے کی اجازت ہوتی ہے بشرطیکہ بحر بدل نہ ہو جائے۔ یہاں آخری رکن میں "فعِلن" اور "فعِلان" دونوں میں تسکین اوسط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یوں "فَعِلُن" کا عین ساکن ہوکر "فعْلن" ہوا۔ اور "فعِلان" سے عین ساکن ہو کر فعْلان ہوا۔ جس رکن میں تسکین اوسط کا استعمال کیا جائے اسے مُسَکِّن کہتے ہیں۔ یوں بحر کا نام "بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مسکن" ہوا (کچھ لوگوں نے اسے "بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع" کہہ کر دھوکہ کھایا ہے کیونکہ رمل میں قطع کا زحاف آتا ہی نہیں)۔ اس طرح اب تک چار اوزان ہو گئے۔

1۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلُن
2۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلان
3۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعْلن
4۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعْلان

تیسری اجازت: فصحا نےاس بحر کے پہلے رکن کو سالم "فاعلاتن" کی جگہ مخبون "فعِلاتن" لانا بھی رواں رکھا ہے۔ کیونکہ آہنگ نہیں بگڑتا اور روانی میں بھی کمی نہیں آتی۔ اب اس طرح چار سے یک لخت آٹھ اوزان ہوگئے ہیں۔ چار فاعلاتن اور چار فعِلاتن کے ساتھ۔

1۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلُن    (رمل مثمن مخبون محذوف)
2۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلان   (رمل مثمن مخبون مقصور)
3۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعْلن    (رمل مثمن مخبون محذوف مسکن)
4۔ فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعْلان  (رمل مثمن مخبون مقصور مسکن)
5۔ فعِلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلُن     (رمل مثمن مخبون محذوف)
6۔ فعِلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلان    (رمل مثمن مخبون مقصور)
7۔ فعِلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعْلن      (رمل مثمن مخبون محذوف مسکن)
8۔ فعِلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعْلان    (رمل مثمن مخبون مقصور مسکن)

یہاں تک آٹھ اوزان ہوئے جو ایک غزل میں یا نظم میں جمع ہو سکتے ہیں۔
اس کے بعد ایک اور اجازت بھی ہے جس کو فارسی شعراء نے بہت استعمال کیا ہے۔ مگر اردو میں شاذ ہے۔ اور وہ یہ کہ حشوین (یعنی درمیانی دو ارکان) میں جو تین مسلسل متحرک حروف ہیں، ایک مصرعے میں ان دونوں میں سے کسی ایک "فعِلاتن" کا عین تسکین اوسط سے ساکن کرکے اسے "مفعولن" بنا دیتے ہیں۔ یاد رکھیں ایک مصرعے میں حشوین کا صرف ایک فعلاتن مفعولن بن سکتا ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ بحر کے سبھی ارکان میں تسکین اوسط کا استعمال جائز ہونا چاہئے۔ جی آپ بھی صحیح سوچ رہے ہیں۔ مگر بات یوں ہے کہ اگر ہر جگہ تسکینِ اوسط استعمال ہو تو بحر یوں ہو جائے گی:

مفعولن مفعولن مفعولن فعلن

یہ کیا بلا ہے؟ آئیں اس کا جائزہ لیتے ہیں.
اس وزن میں گیارہ سبب خفیف ہیں تو اس کو یوں لکھیں:

فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع

جی تو جناب یہ بحر رمل سے نکل کر متقارب میں پہنچ گئی ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے جیسا اوپر بتایا ہے ویسا ہی درست ہے۔ یعنی حشوین کا صرف ایک فعلاتن "مفعولن" بن سکتا ہے۔
اب بات یہ ہے کہ فعلاتن کو مفعولن بنانا عروضی طور سے تو جائز ہے، مگر اردو شاعری میں اس کا استعمال بہت کم ہی نظر میں آیا ہے۔ اور اسکی دو وجہیں سمجھ آتی ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اردو شعراء اس اجازت کو نا واقفیت کی بنیاد پر استعمال نہیں کرتے تھے، اور دوسرا یہ کہ عام طور پر ایسے استعمال سے آہنگ بگڑ جاتا ہے اور شعر نا مطبوع ہو جاتا ہے۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر شاعر استعمال کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں اور اس پر کسی کو انگلی اٹھانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

غزل برائے تقطیع:

شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا

اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

شوخیِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک
آخر اے عہد شکن! تو بھی پشیماں نکلا

دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا


طالبِ دعا:
مزمل شیخ بسملؔ

تبصرے

  1. بھائی زحاف "خبن" سالم بحر میں ہر رکن پر تواستعمال ہو سکتاہے ۔مگر کیا کسی ایک رکن پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔کوئی ترتیب ہوتی ہے ؟سوال کو واضح کر تا ہوں سمجھنا یہ چا رہاہوں کہ فاعلاتن فاعلاتن فعلاتن فعلن کر سکتا ہوں۔؟یہ زحاف "خبن " ایک ہی مصرعے پر کتنے ارکان پر اور کس ترتیب سے استعمال کر سکتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. خبن کا زحاف عام زحاف ہے۔ اسے ہر رکن میں استعمال کیا تو جاسکتا ہے لیکن اسے ہر ترتیب اور بے ترتیبی سے استعمال کرنے میں بحر کی مانوسیت ختم ہوجائے گی۔ اس لیے بہتر ہے کہ انہی مزاحف بحروں کو استعمال کریں جو مانوس ہوں۔

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حرف روی کی تعریف۔ ایک استفسار کا مفصل جواب۔ مزمل شیخ بسملؔ

فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

علمِ عَروض سبق ۹