علمِ عَروض سبق ۶



پچھلے اسباق میں ہم نے اب تک پانچ مختلف بحور کے مختلف آہنگ یعنی اوزان کو پڑھا ہے۔
اب ہم ایک اور مفرد بحر کو پڑھتے ہیں۔ بحر کا نام ”بحر رمل“ ہے۔ یوں تو بحر رمل سالم کا وزن ”فاعلاتن“ چار مرتبہ ہے۔ مگر یہ بحر اردو میں سالم مستعمل نہیں۔ مثال کے لئے ایک شعر نقل کر دیتا ہوں:

تاب پر آتا نہیں مطلق دلِ بے تاب جو اب
پیچ کیا کھانے لگیں زلفیں تمہاری ان دنوں میں


تقطیع:
تاب پر اَا :: فاعلاتن
تا نہی مط :: فاعلاتن
لق دلے بے :: فاعلاتن
تاب جو اب :: فاعلاتن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیچ کا کھا :: فاعلاتن
نے لگی زل ::فاعلاتن
فے تما ری :: فاعلاتن
ان دنو مے :: فاعلاتن

سالم وزن جیسا کے کہا گیا کہ اردو میں مستعمل نہیں ہے۔ اور وجہ اسکی یہ کہ اس وزن کا آہنگ اردو میں کوئی خاص متاثر نہیں کرتا اسی بناء پر اسے متروک جانا جاتا ہے حالانکہ یہ کوئی قوی وجہ نہیں، بہر حال۔ اس بحر کا ایک وزن خاصا مستعمل ہے جو ”رمل مثمن محذوف“ کہلاتا ہے، ارکان اس طرح ہیں:

”فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن“

یہ وزن سالم نہیں ہے کیونکہ اسکے تمام ارکان اپنی اصلی حالت میں نہیں بلکہ آخری رکن میں تبدیلی آگئی ہے جو اسطرح ہے:
سالم رکن (فاعلاتن) کا آخری سبب خفیف (ہجائے بلند) یعنی ”تن“ کو آخری سے حذف کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ”فاعلا“ بروزن ”فاعلن“ بچ گیا۔ اس عمل کو عروضی اصطلاح میں ”حذف“ کہا جاتا ہے اور جس رکن یا بحر پر یہ عمل ہو اسے ”محذوف“ کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بحر کا نام ”بحر رمل مثمن محذوف“ ہے

میرؔ:
بلبلوں نے کیا گل افشاں میرکا مرقد کیا
دور سے آیا نظر تو پھولوں کا اک ڈھیر تھا

تقطیع:
بلبلو نے :: فاعلاتن
کا گل افشا :: فاعلاتن ۱؎
میرکا مر :: فاعلاتن
قد کیا :: فاعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور سے آ :: فاعلاتن
یا نظر تو :: فاعلاتن
پھولُ کا اک:: فاعلاتن ۲؎
ڈیر تھا :: فاعلن
ــــــــــــــــــــــــ

۱؎ ”کیا “ استفہامیہ میں ”ی“ شمار نہیں ہوتی۔ مگر کرنا کا ماضی مطلق ”کیِا“ میں ”ی“ شمار ہوتی ہے۔
۲؎ پھولوں میں نون غنہ کے علاوہ ”واؤ“ کو بھی گرایا گیا ہے


اشعار برائے مشق:

جامۂ مستیِ عشق اپنا مگر کم گھیر تھا
دامن تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا

دیر میں کعبے گیا میں خانقہ سے اب کی بار
راہ سے میخانے کی اس راہ میں کچھ پھیر تھا


مزمل شیخ بسملؔ

تبصرے

  1. جناب اس جانب توجہ چاہونگا ...
    ڈیر تھا :: فاعلاتن
    یہ فاعلن کے وزن پر ہے ... لکھنے میں شاید سہو ہو گیا

    دوسرے ایک بات سمجھ نہیں آئ

    کا گل افشا :: فاعلاتن

    کی تقطیع فاعلاتن کیسے ہوئی ... جبکہ یہ میری ناقص راۓ میں ٢ ٢ ٢ میں ٹوٹتی دکھتی ہے
    رہنمائی فرمائیں ..
    شکریہ ..
    کاشف

    جواب دیںحذف کریں
  2. ڈیر تھا کی تقطیع کے حوالےسے آپ کی نشاندہی کا شکریہ۔
    گل افشا کی تقطیع کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں افشا کے سر سے الف گرایا گیا ہے اور ف کو ماقبل لام سے ملادیا گیا ہے۔ اس عمل کو عروض میں الف کا وصال کہتے ہیں۔ یہ "گلَفشا" پڑھنے میں آئے گا۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حرف روی کی تعریف۔ ایک استفسار کا مفصل جواب۔ مزمل شیخ بسملؔ

فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

علمِ عَروض سبق ۹