علمِ عَروض سبق ۲


اب تک آپ یہ تو سمجھ چکے ہیں کہ علمِ عروض کیا ہے اور اس میں ”بحر“ کیا کام انجام دیتی ہے۔ 
اب آگے بڑھتے ہیں ۔۔۔
پہلے تو آپ کو میں یہ بات بتاؤں کہ ہم عروض کو آہنگوں کے طریقے سے سیکھیں گے تاکہ آپ کی طبیعت پر بار نہ رہے۔ اور آگے چل کر اگر آپ کو دلچسپی ہو تو پڑھتے جائیں سمجھتے جائیں اور پوچھتے جائیں۔ 


تو بات یہ تھی کہ ہم نے بحر کو جانا تھا کہ یہ الگ الگ آہنگوں کا میزان ہے۔ آج کچھ مزید روشنی ڈالتے ہیں۔ اب تک ہم نے تعارف کے طور پر صرف ایک آہنگ جو غالب کے شعر میں تھا اسے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کے عروض میں آہنگوں کی ناپ تول کے لئے ارکان متعین ہیں جو الگ الگ بحریں بناتے ہیں۔ 
اسی آہنگ میں ایک اور شعر پیش کرتا ہوں:
خموشی اس لئے دیوانگی میں ہم نے حاصل کی
خدا جانے وہ کیا پوچھے ہمارے منہ سے کیا نکلے

یہ بھی وہی آہنگ ہے جو غالب کے شعر میں ہے یعنی اس کا وزن ہے:

مُفَاعِیلُن مُفَاعِیلُن مُفَاعِیلُن مُفَاعِیلُن
مُفَاعِیلُن مُفَاعِیلُن مُفَاعِیلُن مُفَاعِیلُن

ایک شعر میں کل آٹھ مرتبہ مُفَاعِیلُن آیا ہے چار مرتبہ ایک مصرعے میں اور چار مرتبہ دوسرے میں، اس مُفَاعِیلُن کو روانی سے چار مرتبہ دہرائیں پھر اوپر ایک مصرع پڑھیں تو دونوں کے وزن اور آہنگ برابر ہیں۔ 
اب ایک شعر آتشؔ کا دیکھیں:
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو دیکھا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

یہ ایک الگ آہنگ ہے۔ ایک نیا وزن ہے۔ اس کا وزن برابر ہے آٹھ عدد ”فعولن“

فَعُولُن کو چار مرتبہ تھوڑی روانی کے ساتھ دہرائیں:

فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
پھر مندرجہ بالا شعر کا ایک مصرع پڑھیں۔ ۔ ۔ اب غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوجائیگا کے چار مرتبہ فَعُولُن آہنگ کے حساب سے برابر ہے ایک مصرعے کے۔ 
اسی طرح دوسرے مصرعے کو پڑھیں تو بھی یہی بات سامنے آئے گی۔ گذشتہ آہنگ یعنی مفاعیلن کی بحر کا نام تھا ”بحر ہزج مثمن سالم “(مثمن کا مطلب ”آٹھ“ ہے۔ اسلئے کے ایک شعر میں آٹھ مرتبہ مفاعیلن آیا تھا تو مثمن لگایا بحر کے نام کے ساتھ)۔

آج کی بحر جو کہ فعولن آٹھ بار ہے اس کو ”بحرِ مُتَقَارِب مُثَمّن سالم“ بحر ِتقارب بھی اسی بحر کو کہتے ہیں۔ مثمن سے آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ اس میں آٹھ ارکان ہیں ۔

اس کا ایک شعر تو آپ نے آتش کا پڑھا ۔ اب انشا فرماتے ہیں:

”سنی تھی کسی سے جو بحرِ تقارب
اسے کرلیا گھنگرؤں کا تفنّن

کہ تولے ہے اپنے سبق پر یہ کہہ کر
فعولن فعولن فعولن فعولن“

انشا نے یہ آخری مصرعے میں چار مرتبہ فعولن کو شعر کے ایک مصرعے کی صورت میں استعمال کیا ہے۔ اور ان دو اشعار سے آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ان میں ہر ایک مصرع چار مرتبہ فَعُولُن یعنی:
فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن فَعُولُن
کے برابر ہے۔
مزمل شیخ بسملؔ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حرف روی کی تعریف۔ ایک استفسار کا مفصل جواب۔ مزمل شیخ بسملؔ

فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

علمِ عَروض سبق ۹