شاعر یا ناقد؟

ایک عرصۂ دراز گزر چکا اس دور کو جب استاد کا حکم ہی عزت ہوا کرتا تھا شاگرد بھی در حقیقت شاگرد ہی ہوتے تھے جن میں مہارت حاصل کرنے جذبہ تو ہوتا تھا مگر سیکھنے سکھانے پڑھنے پڑھانے کے بعد اس منزل تک پہنچنا پسند کرتے تھے، شاگرد کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو جائے استاد سے چھوٹا ہی رہتا تھا، ریاست میں سیاست تھی نہ دماغوں میں غلاظت تھی۔ جو کچھ تھا تو وہ طبیعت اور لہجے کی نفاست تھی جس سے دلوں پر قابو پایا جاتا تھا، نہ کوئی بادشاہ علماء سے کچھ پوچھ لینے کو بے عزتی محسوس کرتا تھا نہ کوئی نواب کسی استاد شاعر سے اپنی شاعری پر اصلاح لینے میں شرم محسوس کرتا تھا۔ ایسی اور اس جیسی سیکڑوں باتیں تاریخ نے تاریخ دانوں کے ہاتھوں رقم کروائی ہیں۔

مگر ”دور “ تو دور ہے جو دوڑ تا ہے اور یک لخت ہی پلٹ جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ رفتہ رفتہ جو جو وقت چلتا ہوا ترقی ہوتی گئی، وسائل بڑھتے چلے گئے، فرصتیں گھٹتی چلی گئیں ۔ قربتیں فرقتوں میں بدل گئیں، عزت و عظمت کے وہ رنگ نہ رہے، فن کی وہ حیثیت نہ رہی، اور ”ہیرے کی قدر جوہری ہی جانے“،” گدھا کیا جانے زعفران کا مزہ“ اور ”ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔۔۔ الخ“ جیسی مثالیں بچوں پر صرف اپنا دبدبہ اور رعب ڈالنے کی حد تک ہی رہ گئیں۔

آج کے مصروف ترین دور میں اردو کے حوالے سے فن اور فنکاروں کی دو اقسام ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو وطن چھوڑ کہیں پردیس جا کر آباد ہوئے، اچھی نوکری بھی ہے بنگلہ اور گاڑی بھی ہے مگر اپنی زبان سے رشتہ قائم رکھنے کے لئے خلائی (انٹرنیٹ پر قائم ہونے والی) محافل میں حصہ لیکر ”ہوم سِکنیس“ سے بچنا چاہتے ہیں۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو محض شوق۔۔۔ اور شوق کی ہی بنیاد پر خود کو اہل ادب اور اہل ذوق کہلوانا چاہتے ہیں۔

(اساتذہ اور ماہرین ِ عصرکو میں اس مضمون میں شمار نہیں کرتا ان سے معذِرت)

ہمیں ذاتی طور پر کسی سے شکایت نہیں کہ آج کل کوئی اگر خود کو اہل ادب یا اہل ذوق کا لیبل دینا چاہتا ہے تو حرج ہی کیا ہے؟ مگر ایک بات ضرور لائقِ بحث ہے اور وہ یہ کہ اہل ذوق حضرات جن میں اکثر و بیشتر خود کو شاعر بھی کہتے ہیں اور ساتھ ہی خواص تو خواص ہیں یہاں عوام بھی ناقدین سے خاصی نالاں نظر آتی ہے۔کان لگا کر سنیں تو کوئی کہتا ہے کہ بھئی ”ناقد کی مثال تو ایسی ہے جیسے کرکٹ میں کوئی کمنٹیٹر ہوتا ہے جو در حقیقت ایک retired یا rejected کرکٹر ہوتا ہے۔ خود تو کرکٹ میں اس کی کوئی حیثیت ہوتی نہیں ہے ہاں کمنٹری میں بڑے بڑے" بیٹس مین" کی غلطیاں عوام کو بتاتا ہے“

کوئی کہتا ہے ”جس سے شاعری ڈھنگ سے نہیں ہوتی وہ اچھی شاعری کرنے والوں کی غلطیاں کیا بتائینگے؟ صرف حسد کے مارے ناقد بن بیٹھے ۔ ۔ ۔الخ“

ایسی اور اس طرح کی مزید مثالیں اور پھبتیاں اڑتی دکھائی دیتی ہیں، طعن آمیز فقرے، مضحکہ خیز مثالیں اور جلی کٹی باتوں کا سامنا ناقدین کو کرنا پڑتا ہے۔ مگر ناقدین کی غلطی آخر کیا ہے؟ کیا ناقد کوئی فنکار ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا ناقد کی ادب میں کوئی حیثیت ہے یا نہیں؟ کیا ناقد حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں رکھتا ؟
یہ غلط فہمیاں آج کل کے خود ساختہ شاعروں میں اور ان شاعروں کو پسند کرنے والوں کے دل و دماغ میں رچتی اور بستی جا رہی ہیں۔ عوام کے ذہن میں یہ باتیں پہلے نہیں تھی مگر اب ایک وسیع حصہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ جو شاعر مقبول و معروف اور مشہور ہوجائے بس وہی استاد شاعر ہے۔ بلکہ میں نے تو لوگوں کو یہاں تک کہتے ہوئے سنا کہ نوشی گیلانی صاحبہ فرحت عباس اور وصی شاہ مستند شعراء میں سے ہیں۔ مگر جب انہیں بتایا جائے کہ ناقدین کی نظر میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تو ناقدین پر لعن طعن اور گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہاں میرے چند سوال ہیں:

۱۔ کسی شاعر کے کلام کے محاسن و معائب کا فیصلہ کون کرتا ہے؟
۲۔ کیا عوام اس قابل ہوتے ہیں کہ شاعری میں معائب اور محاسن کو تلاش کر کے اچھے شاعر کو قبول کرے اور باقیوں کو ترک کردے؟
۳۔ کیا عوام میں مقبول شاعر حقیقت میں اچھا اور استاد شاعر ہی ہوتا ہے؟

ایک مثال دیتا ہوں : اگر ایک آدمی کو راہ میں چلتے ہوئے کوئی زیور ملے جس کا رنگ سونے جیسا چمکتا دمکتا ہو مگر یقین نہ ہو کہ وہ سونا ہی ہے تو اسکی تصدیق کے لئے اسے کہاں جانا ہوگا؟ یقیناً سنار کے پاس ہی جائے گا! کیونکہ سونے کے زیور کا فیصلہ عوام کا کام نہیں کہ وہ حقیقت میں سونے کا ہے یا نہیں، اس کے لئے سنار جو اس فن میں مہارت رکھتا ہے اسی کا فیصلہ قابل قبول ہوگا، عوام کا فیصلہ اس سلسلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہی معاملہ زبان و بیان، نقد و نظر اور شعر و سخن کا بھی ہے جس میں فیصلہ صرف اس کا قابل قبول ہوگا جو اس فن میں مہارت رکھتا ہو، عوام کا فیصلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اور یہ بات تو متفَق علیہ ہے کہ زبان و بیان پر مہارت رکھنے والا ہی ناقد ہوتا ہے کیونکہ ادبی تنقید کا اہل بھی وہی ہوتا ہے جو زبان پر عبور رکھتا ہو، محقق بھی ہو اور ساتھ ہی اس میں اتنا شعور بھی ہو کہ شعر کی شعریت اور شعرا کے تقابل کا جائزہ لیکر فیصلہ کرنا جانتا ہو۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ ناقد محض تنقید ہی کرنا جانتا ہے تو یہ انتہائی نا انصافی کی بات ہے کیونکہ یہ بات تو ماہِ چار دہ کی طرح واضح اور روشن ہے کہ شاعر کو سمجھنے والا بھی کوئی شاعر یا عوام نہیں بلکہ خود ناقد ہی ہوتا ہے، ورنہ انصاف سے بتائیں کہ میر تقی میرؔ کو خدائے سخن کا خطاب کن لوگوں نے دیا؟ ناقدین نے یا کسی چمار نے؟
مرزا غالب کا کلام جو عوام کے لئے کسی چیستان سے کم نہ تھا اسکی شرحیں لکھ کر عوام اور ادبی حلقوں کو سمجھانے والا کون تھا؟ کیا وہ خود ایک بہت بڑا ناقد نہ تھا؟

پھر جہاں جہاں ناقدین نے تنقیدیں کی ہیں ان سے یہ کب ثابت ہوا کہ وہ تنقیدیں فضول ہیں جن کا منطق سے کوئی تعلق نہیں؟ بلکہ میرے نزدیک تو شعراء کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو ناقدین کی بدولت ہی پڑھا جاتا ہے، آج اگر ناقدین نہ ہوتے تو شعراء کی ایک طویل تعداد کو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔

جہاں ناقدین نے معائب پر سوال اٹھائے ہیں وہیں محاسن کو بھی انہوں نے ہی سمجھا اور دوسروں کو بھی سمجھایا۔ ورنہ یہ کام شعراء اور عوام کے بس میں کہاں تھا؟
مجھے شعراء کی قابلیت تسلیم ہے، ان کی قدر و قیمت سے مجھے انکار نہیں، مگر ناقدین کا وجود بھی ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھئے کہ شاعر کے لئےقوانین اور حدود میں رہنے کی وجہ ناقد کا وجود ہے۔ اگر ناقدین کا کوئی وجود نہ ہو تو شعراء کا اپنے آپ کو قواعد کی حدود میں رکھنا مشکل ہوجائے، اور وہ وہ مہملات ادب کا حصہ بن جائیں جن سے زبان کا بیڑا غرق ہو اور زبان نیست و نا بود ہوجائے۔
یہاں ناقدین کو بھی اس بات کا خیال چاہئے کہ ادبی تنقید با ادب انداز میں ہو، ایسا نہ ہو کہ کہیں تو بھائی چارگی کی بنیاد پر کسی شاعر کو تو آسمان پر پہنچا دیا جائے۔ اور کہیں کسی دوسرے شاعر کو تعصب کی بنیاد پر زندہ در گور کردیا جائے۔ لیکن بد قسمتی سے اس قسم کی نا انصافیاں آج کل عام ہوتی جا رہی ہیں جس سے ادبی تنقید کو خاصا نقصان بھی پہنچتا ہے اور نو آموز اس قدر تردد کا شکار ہوجاتے ہیں کہ جس سے ادب بیزاری کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے۔ جس شاعر کا جو مقام ہے اسے وہی مقام ملنا چاہئے، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔

اللہ شعراء، ناقدین اور ادب کے قارئین کو ہدایت نصیب فرمائے۔

مزمل شیخ بسملؔ

تبصرے

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ محمد یعقوب آسی صاحب۔

      حذف کریں
    2. غم کی دیوار گرانے کو نہیں آتا ہے
      مجھے کوئ اپنا بنانے کو نہیں آتا ہے

      رات گۓ تک تو میں دروازے کھلے رکھتا ہوں
      کوئ دل کو ہی چرانے کو نہیں آتا ہے

      ایسے تنہائ کے عالم میں جیوں بھی تو میں کیسے
      کوئ کم بخت ستانے کو نہیں آتا ہے

      ایسا بدلہ ہے وہ غیروں کی بغل میں رہ کر
      صرف چہرہ ہی دکھانے کو نہیں آتا ہے

      کیسے مانوں کے وہ اب تک ہی مجھے چاہتا ہے
      اپنا حق بھی تو جتانے کو نہیں آتا ہے

      اس کی لاغرضی باقر ذرا دیکھو تو سہی
      میں جو روٹھا ہوں منانے کو نہیں آتا ہے

      مرید باقر انصاری

      حذف کریں
  2. جوابات
    1. اصلاحِ سخن پر خوش آمدید۔ مجھے خوشی ہے آپ کو تحریر پسند آئی۔
      آتے رہیے گا۔

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حرف روی کی تعریف۔ ایک استفسار کا مفصل جواب۔ مزمل شیخ بسملؔ

فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

علمِ عَروض سبق ۹