علمِ عروض سبق ۱۰

پچھلے سبق میں ہم نے اجزائے ارکان یعنی سبب، وتد، فاصلہ اور ان کی اقسام کے بارے میں تفصیلی طور پر بحث کی ہے۔ ساتھ ہی عام اردو اور فارسی الفاظ کی مثالوں کو بھی دیکھا۔ اب وقت موزوں ہے کہ ہم ان اجزائے ارکان کو ارکانِ عروض کے حوالے سے سمجھیں اور ان کا استعمال بھی عروضی حوالے سے واضح کردیں۔اب ہم ارکان کے تحت ہر خاص رکن کے اجزاء کو دیکھتے ہیں۔


مفاعیلن

اس کے تین اجزاء ہیں۔

۱) وتد مجموع = مفا
۲) سبب خفیف = عی
۳) سبب خفیف = لُن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

وتد مجموع--سبب خفیف--سبب خفیف

فاعلاتن

اس کے تین اجزاء ہیں۔

۱) سبب خفیف = فا
۲) وتد مجموع = علا
۳) سبب خفیف = تُن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

سبب خفیف-- وتد مجموع-- سبب خفیف

مستفعلن

اس کے تین اجزاء ہیں۔

۱) سبب خفیف = مس
۲) سبب خفیف = تف
۳) وتد مجموع = علن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

سبب خفیف--سبب خفیف--وتد مجموع

فعولن

اس کے دو اجزاء ہیں۔

۱) وتد مجموع = فعو
۲) سبب خفیف = لن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

وتدِ مجموع--سبب خفیف

فاعلن

اس کے دو اجزاء ہیں۔

۱) سبب خفیف = فا
۲) وتد مجموع = علن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

سبب خفیف--وتد مجموع

متفاعلن

اس کے دو اجزاء ہیں۔

۱) فاصلۂ صغری = متفا
۲) وتد مجموع = علن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

فاصلۂ صغری--وتد مجموع

مفاعلتن

اس کے دو اجزاء ہیں۔

۱) وتد مجموع = مفا
۲) فاصلۂ صغری = علتن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

وتد مجموع--فاصلۂ صغری

مفعولاتُ

اس کے تین اجزاء ہیں۔

۱) سبب خفیف = مف
۲) سبب خفیف = عو
۳) وتد مفروق = لاتُ

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

سبب خفیف--سبب خفیف--وتد مفروق

فاعِ لاتن (منفصل)

اس کے تین اجزاء ہیں۔

۱) وتدِ مفروق = فاعِ
۲) سبب خفیف = لا
۳) سبب خفیف = تُن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

وتد مفروق--سبب خفیف-- سبب خفیف

مس تفعِ لن (منفصل)

اس کے تین اجزاء ہیں۔

۱) سبب خفیف = مس
۲) وتد مفروق = تفعِ
۳) سبب خفیف = لن

اس کی ترتیب اس طرح ہوئی:

سبب خفیف--وتد مفروق--سبب خفیف


آپ نے یہ تو سمجھ لیا کہ کونسا رکن کس طرح اور کس ترتیب سے کون کون سے اجزاء سے مل کر بن رہا ہے۔
اب آپ جانتے ہیں کہ شاعری کو وجدان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اتنا ہی گہرا تعلق کہ جتنا آپ کا اور پیاس کا تعلق ہے۔ پیاس میں جب تک آپ پانی یا کوئی مشروب نہ پی لیں تب تلک آپ کو سکون نہیں ملتا، اسی طرح شاعر کے اندر پیاسا شعر جب تک اپنے الفاظ آپ سے نہ لے لے اس وقت تک شعر آپ کے اندر منڈلاتا اور آپ کو ستاتا رہے گا۔ وجدان ایک ایسی شئے ہے جو آپ کے علوم سے کبھی بھی بغاوت نہیں کرتی۔ لیکن پھر بھی وجدان کا کمال آپ شعوری طور پر نہیں بلکہ لاشعور یا تحت الشعور میں دیکھتے ہیں۔ جب آپ شعر کہتے ہیں اور وہ با وزن بھی ہوتا ہے تو در حقیقت آپ اسے وزن میں کہنے کی کوشش نہیں کر رہے ہوتے لیکن پھر بھی وہ شعر اپنے آپ کسی وزن یا کسی بحر میں ڈھل جاتا ہے۔ انہی بحور کو عروض نے جب جمع کیا تو معلوم یہ ہوا کہ وجدانی طور پر آیا ہوا باوزن شعر در حقیقت اپنے اندر ایک ریاضی کا حامل ہے۔ عروض نے بہر حال اس ریاضی کو ایک قاعدے کے تحت محفوظ کرلیا۔ جس سے مختلف بحریں وجود میں آئیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ آپ نے جو اتنی ساری بحریں اب تک دیکھیں وہ ایسے ہی کسی اتفاق سے نکل کر عروض میں شامل ہوگئیں یا پھر جس کی مرضی میں جو رکن جس ترتیب سے آیا اس نے اسی طرح وہ رکن رکھ کر ایک بحر بنالی۔ بلکہ ان کے پیچھے باقاعدہ ایک نظام موجود ہے۔ آج ہم اسی نظام کو سمجھیں گے کہ کس طرح بحریں وجود میں آتی ہیں۔

علم عروض میں جیسا کہ ہم نے ارکان کے اجزاء کو ابھی ابھی دیکھا ہے تو مناسب ہے اب یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ کسی ایک ہی رکن کے اجزاء کی ترتیب میں رد و بدل کرنے سے ہمارے پاس نئے ارکان اور نئی بحریں وجود میں آتی ہیں۔ اجزائے ارکان میں اس ترتیب وار تبدیلی کو عروض میں فکِّ بحور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یعنی اسی طریقے سے بحروں کا انفکاک ہوتا ہے۔ ایک رکن کے اجزاء کی ترتیب میں تبدیلی سے جس قدر ارکان یا بحریں ظاہر ہونگی انہیں ایک ہی خانے میں رکھا جائے گا اس خانے کو دائرہ بھی کہتے ہیں۔

مثلاً پہلا رکن مفاعیلن ہے جو تین اجزاء سے بنا ہے۔
وتدِ مجموع--سبب خفیف--سبب خفیف
مفا عی لن

ان اجزا کی ترتیب کو بدلیں اور آخری سبب خفیف (لُن) کو آخر سے اٹھا کر شروع میں رکھ دیں تو کچھ ایسا بن جائے گا۔
سبب خفیف--وتد مجموع--سبب خفیف
لن مفا عی

ہم نے یہاں آخر سے لُن کو اٹھا کر شروع میں رکھدیا تو مفاعیلن سے بدل کر رکن "لُن مفاعی" ہوگیا جو کہ وزن میں "فاعلاتن" کے برابر ہے۔ اب ہم اس میں پھر ایک تبدیلی کرتے ہیں کہ اس کا آخری سبب خفیف اٹھا کر پھر شروع میں رکھ دیتے ہیں تو ہمیں یہ ترتیب ملے گی۔
سبب خفیف--سبب خفیف--وتد مجموع
عی لن مفا

واضح ہے کہ پھر تبدیلی سے جو صورت بنی وہ"لن مفاعی" سے بدل کر "عیلن مفا" ہوگئی جو کہ "مستفعلن" کے برابر ہے۔ اب اس میں مزید کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے کیونکہ پھر وہی طریقہ جاری رکھنے سے مستفعلن سے واپس ہمیں مفاعیلن ہی مل جائے گا۔ اس لیے یہاں یہ دائر مکمل ہوتا ہے۔ یہ پہلا دائرہ ہے جس کو "دائرۂ مجتلبہ" کہا جاتا ہے۔
یہاں مزید پیچیدگی اور تردد پیدا نہ ہو اس لئے ہم تمام دائرے ابھی بیان نہیں کریں گے، بلکہ جو اصول ہے وہ سمجھانے اور ان کی وضاحت کی خاطر ہم صرف مثالوں سے اس کا طریقۂ کار آپ کو سمجھا رہے ہیں۔ مکمل دائروں کو بعد میں سمجھایا جائے گا۔
اب خماسی (دو اجزاء) والے رکن فعولن کو دیکھیں تو اس کی ترتیب یہ ہے
وتد مجموع--سبب خفیف
فعو لن
اس میں بھی کوئی پریشانی والی بات نہیں، بس دوسرے یعنی آخری سبب خفیف کو اٹھا کر پہلے رکھ دیں تو شروع کا وتد مجموع دوسرا اور آخری کہلائے گا۔ یوں یہ "فعولن" کی بجائے "لن فعو" بن جائے گو جو "فاعلن" کے برابر ہے۔ اس دائرے میں بس یہ دو ہی ارکان ہیں یعنی فعولن اور فاعلن۔ اس دوسرے دائرے کو "دائرۂ متفقہ" کہا جاتا ہے۔

تیسرا دائرہ "دائرۂ موتلفہ" کہلاتا ہے۔ اس میں دو ارکان متفاعلن اور مفاعلتن آتے ہیں۔ اس کی ترتیب کو سمجھانا اب آپ کی ذمہ داری ہے۔ تبصرہ خانہ آپ کے لیے کھلا ہے، مجھے بتائیں کہ دائرۂ موتلفہ کیسے بنے گا۔ تب تک آپ سے اجازت چاہوں گا اگلے سبق میں پھر اس سے آگے بات کرتے ہیں۔

مزمل شیخ بسملؔ

تبصرے

  1. "دائرہ متلفہ"
    فاصلہ صغری ۔ وتد مجموع
    متفاعلن
    بس دوسرے وتد مجموع کو اٹھا کر پہلے رکھا تو وتد مجموع پہلے اور فاصلہ صغری آخر پہ آ جائے گا۔ یوں یہ "متفاعلن " کی بجائے "علن متفا" بن جائے گو جو "مفاعلتن " کے برابر ہے۔ اس دائرے میں بس یہ دو ہی ارکان ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حرف روی کی تعریف۔ ایک استفسار کا مفصل جواب۔ مزمل شیخ بسملؔ

فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

علمِ عَروض سبق ۹