شعر گوئی اور الہام

سوالات: شعر میں الہام کیا ہے؟ عروض کیا ہے؟ علم قافیہ کیا ہے؟ اگر الہام ہے تو عروض و قوافی کا علم کیوں؟ عروض قوافی کا علم ہے تو الہام کیسا؟

یہ وہ سوالات ہیں جو انباکس، مختلف گروپس، فورمز اور پوسٹوں میں لوگ مجھ سے بارہا پوچھتے رہتے ہیں اور میں جواب بھی دیتا رہا ہوں۔ ابھی کل ہی ایک گروپ میں گفتگو چل رہی تھی اس لیے جواب یہاں کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ پیش کردیتا ہوں۔

میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ: علمِ عروض، قافیہ اور نقد وغیرہ کے قوانین کا وجود اس لیے آیا ہے تاکہ "الہام" کی غلطیوں کو سدھارا جاسکے۔
لیکن وہ اگر الہام ہے تو غلطی کیسی؟ اس بات پر بھی اصرار کرنے والے بے شمار ملتے ہیں کہ ان پر اشعار ڈھلے ڈھلائے عروض و قافیہ کی بندش میں قید، صاف زبان و بیان سے مزین، تخیل کی بلند پرواز اور محاکات کے ساز سے آراستہ و پیراستہ مثل وحی اترتے ہیں جنہیں قلمبند کرلیا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی "الہام" ہے؟ اگر نہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان لاشعوری طور پر درست وزن میں مصرعے کیسے کہتا ہے؟ بغیر عروض کے علم کے بھی اس کے اشعار وزن میں کیسے ہوتے ہیں؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی مصرع کہنے کے لیے بحر کا نام یا ارکان معلوم ہونے کی بھی اکثر اوقات ضرورت نہیں ہوتی؟ تو کیا یہ الہام ہی ہے؟ کیا شعر بحر میں ڈھلے ڈھلائے قلبِ شاعر پر القا ہوتے ہیں؟ میرے نزدیک یہ بحث ادبا اور شعرا کی ہے ہی نہیں۔ یہ خالص فلسفہ اور نفسیات کا موضوع ہے۔ شعرا جب اس معاملہ پر بحث کرتے ہیں تو مخالف رائے رکھنے والے دونوں فریق ہی ٹھیک ہوتے ہیں۔ کیونکہ دونوں اپنے اپنے تجربات بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس کو کیا کہوں کہ مجھ پر بھی، ایک بار نہیں۔۔۔ کئی بار۔۔۔۔ عالمِ نیم بیداری میں اشعار "نازل" ہوئے ہیں۔ جو درست بحر، وزن، قافیہ، الفاظ کی نشست و برخواست اور تمام اصولوں پر پورے اترتے تھے۔ لیکن آپ مجھ سے انصاف کی امید رکھتے ہیں اور میں یہ لکھ چکا ہوں کہ یہ فلسفہ اور نفسیات کا موضوع ہے۔ اس لیے یہاں مختصراً عرض کردیتا ہوں کہ آہنگ یا بحر کا علم ہو، قافیہ یا معانی و بیان کا علم ہو۔ ہر علم کسی نہ کسی سطح، کسی نہ کسی درجے میں لاشعوری طور پر دماغ کی نشو و نما کے ابتدائی مراحل میں انسان کے اندر ہی نمو پارہا ہوتا ہے۔ بحر اور اوزانِ شعر کو لیجیے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ اس علم کو بحروں کے نام،افاعیل اور تقطیع کے قوانین پڑھ اور سمجھ کر ہی حاصل کریں۔ ایک بچے کو جب آپ سکول میں بے بی بے بی یس ماما (Baby Baby Yes mama!) یا پھر ٹونکل ٹونکل لٹل سٹار (Twinkle Twinkle Little Stars) والی نظم یاد کرواتے ہیں، یا پھر وہ بچہ گلی محلے میں اکڑ بکڑ بمبے بو سیکھتا ہے تو اس کے اندر وہ آہنگ لاشعوری طور پر سرایت کر جاتا ہے جسے آپ عروض پڑھنے کے بعد "بحرِ متدارک مثمن مخبون محذوف مسکن" کا نام دیتے ہیں اور اس کے ارکان "فعلن فعلن فعلن فع" بتاتے ہیں۔ اس طرح لاشعوری طور پر آپ کتنے ہی آہنگ سیکھتے اور اپنے تحت الشعور میں اتارتے چلے جاتے ہیں۔ پھر یہی علم ارتقائی منازل طے کرکے ایک جمالیاتی حس کو وجود بخشتا ہے۔ یہاں آپ کو تقطیع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح ایک ہی زبان کا استعمال کر کر کے، اس زبان میں بات کرتے کرتے، سوچتے سوچتے، الفاظ کی توڑ جوڑ، چھان پھٹک، قبول اور رد کی مشقِ مسلسل اس کے قوانین آپ کے شعور سے مٹا کر تحت الشعور میں اتار دیتی ہے۔ آپ اپنی مادری زبان کو جب بھی گرائمرکے قواعد سوچ سمجھ کر بولنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ تجربہ ناکام ہوتا ہے۔ یہ بدیہی طور پر آپ میں سرایت کرچکی ہے۔ تو پھر یہ بدیہی طور پر ہی باہر بھی آئے گی۔ تحت الشعور ایک پروگرامڈ سافٹوئیر ہے۔ اس میں آپ کے گرد و نواح سے جو کچھ اور جیسا اترا ہے یہ ویسا ہی آپ کو آؤٹ پٹ فراہم کرے گا۔ یہ غلطی نہیں کرے گا۔ اسے دو اور دو چار سکھایا جائے گا تو یہ چار کہے گا، پانچ نہیں کہے گا۔ اگر پانچ سکھایا گیا تو پانچ ہی کہے گا کبھی چارنہیں کہے گا۔ اب چونکہ نظمیں پڑھتے، گانے گاتے، گیت گنگناتے، اور غزلیں قرات کرتے ہوئے اس بچے کے اندرون میں آہنگ اترتے اترتے جذب ہوگئے تو وہ اس کی مدد سے اب مصرعے موزوں کرسکتا ہے، وہ ٹھیک زبان اور صاف بیان پرقادر ہوگیا ہے۔ اب اسی چیز کو پھر وہ کبھی الہام کا نام دیتا ہے۔ اور کبھی کہتا ہے:
شعر می گویم بہ از آبِ حیات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حرف روی کی تعریف۔ ایک استفسار کا مفصل جواب۔ مزمل شیخ بسملؔ

فعولُ فعلن یا مفاعلاتن۔ ایک استفسار کے جواب میں - مزمل شیخ بسملؔ

علمِ عَروض سبق ۹